اک نظر ادھر بھی( ڈائری)
خواتین کے عالمی دن منانے کا مقصد خواتین کے مقام کو معاشروں میں عزت وتکریم وپردہ داری کوفروغ دینا ہے دورجدید کے نام پر اسلامی تعلیمات وطرز عمل کوپس پشت ڈالنے والی یہودی لابی طاقتیں فحاشی،عریانی،بے حیائی کو اس مقام پر لے جاکر خود اسلامی طرز عمل کو نت نئے انداز اورپالیسیوں کے طور پر اپنانے کی کوشش کررہے ہیں جس سے ان کے معاشروں میں بہتری ہوسکے،اسلام واحد دین ہے جس نے خواتین کو انکا حقیقی مقام دیا،ہمارئے پیارئے آخرالزماں نبی ﷺ نے پتھروں کے زمانوں میں سر پٹخنے والوں کو بیٹیوں کی عزت وتکریم کرنے کی ہدایت دی جو اپنی بیٹیوں کو زندہ درگو کردیتے تھے اوریہ امت اسی آخرالزماں نبی ﷺ کی پیاری امت ہے جس پر سابقہ امتوں نے اس امت کے ووجود میں آنے سے پہلے ہی رشک کیا تھا اگر ہم بطور مسلمان اپنامحاصبہ کریں تو ہمارئے قول وفعل میں تضاد کی رسی اس سرکش نفس کے ہاتھ میں دکھائی دے گی جو بظاہر انسان کو اسکے اندر کے چھپے ہوئیے بھیڑیئے سے آشنا کردیتا ہے لیکن اس کے لیے کسی کامل انسان کی غلامی بے حد ضروری ہے،بغیر ولی کامل کے انسان کو حقیقی آئینہ وصراط مستقیم پر کوئی نہیں چلا سکتا کیوں کہ ایک فقیر ہی ہے جو فرقہ واریت کی بھٹی میں کسی کو جلنے نہیں دیتا،اس کے لیے مردوزن دونوں کو ہی اسی تعلیمات کی اشدضرورت ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ہم صراط مستقیم کی جانب رواں دواں ہوسکیں،سابقہ ادوار کابغور مشاہدہ کیاجائے تو بغیر ٹیکنالوجی کے اس دورمیں بھی خواتین نے اپنے فن وہنر کے ایسے ایسے ریکارڈ قائم کئے کہ آج کے جدید دور میں بھی ان کے فن پاروں کو دیکھ کر دل عش عش کراٹھتا ہے،زمین میں بوئے گئے ایک بیج میں ہزاروں درخت وہی دیکھ سکتاہے جس کا مشاہدہ بڑا ہو اسی مشاہدئے کو دیکھتے ہوئے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ معاشرتی برائیوں کے خاتمہ پر فوکس کیاجائے اوراسلامی جمہوریہ پاکستان میں موجود تمام ایسے سوراخوں کی بندش کے لیے ایک قافلے کی شکل میں اقدام اٹھانا چاہیے جس پر عمل پیراہوکر ہم اپنی نسلوں کو گناہوں،بے حیائیوں کی دلدل سے باہر نکالنے میں معاؤن ومدد گار ثابت ہوسکیں،ہم سب کی عزت،ماؤں بہنوں کو اپنی مائیں بہنیں کہتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں برائی کی دلدل میں کس طرح دہنستے ہی جانتے ہیں کہ اورجب ہم عمر اسکے حصے میں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ ممکن نہیں ہوتا تو پھر ہمیں اپنی غلطیاں اورکوتاہیاں آئینے کی طرح صاف شفاف دکھائی دینا شروع کردیتی ہے،قارئین معاشرہ ہم لوگ خود ہیں اس کو درست کرنے کے لیے اپنی ذات سے اپنے گھر سے آغاز کرنا ہوگا،اگرکوئی معلم ہے تواسکو اسکا آغاز علم سے کرنا چاہیے اگر کوئی قانون دان ہے تو اس کو قانونی چارہ جوئیوں پر فوکس کرتے ہوئے ایسے قوانین کو ساتھ لیکر چلنا چاہیے جس سے وہ برائی بے حیائی کے سوراخ بند کئے جاسکے جس سے معاشروں میں بگاڑ ناسور کی طرح پیدا ہورہا ہے کیونکہ برائی کی جڑ وہ عنصر ہے جس سے اچھا بھلا خاندان مصیبتوں کاشکار ہوجاتا ہے اس کی اول بنیاد تعلیمی ادارئے ہیں جہاں سے علم کے فروغ کے بجائے فحاشی بے حیائی،بے پردگی کو فروغ دیاجاتا ہے وہ بھی کلرڈیز کے نام پرجن کو روکنے کے لیے کوئی عوامی پلیٹ فارم نہیں اورنہ ہی کوئی ایساقانون دان ہے جو خود بخود اس سوراخ کو بند کروانے کے لیے حکومت کی توجہ مرکوز کروائے،تعلیمی اداروں میں خواتین کے لیے یونیفارم کے بجائے برقعے کو لازمی قراردیاجانا چاہیے،نقاب کی پابندی کروائی جائے،اسی طرح معاشرتی برائیوں میں بڑی برائی آجکل پاکستان میں چلائے جانے والے ڈرامے ہیں جن مختلف پاکستان میں چلارہے ہیں اورساتھ میں یہ تحریر بھی نشر کررہے ہیں لکھنے والا اس کا ذمہ دار ہے اس ذمہ دار تک کون کوپہنچے اورکون پہنچائے گا ہے کوئی ایسا قانون دان جوبغیر فیس لیے ان ڈراموں کو بند کروائیں جو پاکستان کاکلچر ہی نہیں،رفتہ رفتہ پاکستان میں ایسے اشتہارات بھی دکھائے جارہے ہیں جس میں بے پردگی کی جھلک نمایاں ہے۔
قارئین:۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت تعلیمی نصاب کو یکساں کیاجائے،دورقدیم کی تعلمی سرگرمیوں کو فروغ دیاجائے،مار نہیں پیارکی بجائے تعلیم وتربیت کی طرف بڑھایاجائے،جس میں ایسا سلیبس ہوکہ پڑھ کر انسانیت پیدا ہو،دل عبادت گاری کی طرف گامزن ہو،جدید دورکے مطابق ایسی کتابیں دی جائیں جس کر پریکٹکل سے تعلق ہو،تجربہ گاہوں کاقیام کیاجائے،ضلع کونسل کی سطح پر حکومت طالبات کو فری پک اینڈ ڈراپس کی سہولیات کی فراہمی دے،خواتین کے لیے پارکس کا قیام جہاں پر خواتین پاکس کے نظام کوسنبھالیں،حکومتی سطح پر ایسی مارکیٹوں کا قیام معرض وجود میں لایاجائے جہاں خواتین خود خریداری کریں اوردکاندار خواتین ہو،ایسے گاڑیوں کو بنایاجائے جس میں تین سے چار خواتین آسانی سے سفر کرسکیں،اورتعلیمی اداروں میں بھی ایساہی نظام ہوکہ خواتین کو تعلیم خواتین دیں پھر ہی ایک خوبصورت اوربہترین معاشرہ تشکیل دیاجاسکتا ہے جب ہم تعلیمی اداروں میں مینابازار،اورآؤٹنگ کے نام پر تعلیمی اداروں میں بے پردگی کو روکنے کے لیے متحد ہونا گا اول حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ ہر تعلیمی اداروں میں ایسی تمام سرگرمیوں کو بند کروائیں جہاں پر میوزک،ڈانس اورٹیبلوشوکے نام پر بے پردگی کی جاتی ہے اورتمام تعلیمی اداروں کے باہر حکومت کی جانب سے موبائل نمبر شکایت بوکس یاشکایات نمبر دیئے جانے چاہیے تاکہ والدین ایسی تمام سرگرمیوں کو روکنے میں اپنا کردارادا کرسکیں جس سے معاشرتی برائیوں میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہو۔