شیخوپورہ کی ڈائری
از قلم شیخ سہیل آحد
مؤرخہ 9 نومبر 2022ء
ضلع شیخوپورہ میں افسروں کے تبادلوں کا سلسلہ ضمنی الیکشن پی پی 139 کے بعد شروع ہوتے ہی کرپشن کے بڑے بڑے سکینڈلز منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں اور جعلی کالونیوں سے لیکر جیل کے بعض حکام کی یومیہ کرپشن سے لیکر خطرناک دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں کو بند نہ کرنے اور سرکاری شفاخانوں میں مطلوبہ میڈیسن کی عدم دستیابی تک کی وجوہات سامنے آرہ ی ہیں اس ضلع کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پر آنے والے کئی افسر کروڑ پتی بن کر رخصت ھوئے مگر عوام کی بد دعائیں اور لعنتیں بھی انکے لئے کم نہ تھیں ا ایسے افسرساری عمر نجی محفلوں میں کہا کرتے ہیں کہ وارث شاہ کی دھرتی میں نوکری کا جو مزہ ہے وہ کہیں اور نہیں اگر کوئی شکایت بھی کر دے تو اس کو تھانیدار پٹواری یا کلرکوں کے ذریعے مروجہ طریقہ کار کے مطابق قابو کرنا آسان ہے کچھ لوگ تو اس حوالہ سے مشہور ہوچکے ہیں کہ وہ کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث عناصر کو بے نقاب کے لئے پہلے درخواستیں دیتے ہیں اور پھر 25۔ ھزار،یاچار پانچ لاکھ لے کر اپنے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں افسروں کے تبادلوں کے بعد محکمہ مال محکمہ صحت محکمہ تعلیم ماحولیات آبپاشی اور دیگر محکموں میں میگا کرپشن کے سکینڈلز منظر عام پر آ رہے ہیں کئی افسروں نے تو ضمنی انتخابات کے ملتوی ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا کیونکہ ان کے سر پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین کے مطابق تبادلہ کی تلوار کچھ عرصہ کے لیے نہ لٹک رہی تھی ضمنی الیکشن کے بعد ڈپٹی کمشنر رانا شکیل اسلم خان تبدیل ہوگئے ان کے جانے کے چند روز کے بعد ہی سابق چیف ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی ڈاکٹر رائے سمیع خان گٹ کی معطلی کا حکومت پنجاب نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا تو انکشاف ہوا کہ شیخوپورہ سے قبل سابق وزیر اعظم عمران خان کے آبائی شہر میانوالی میں بھی ان کے دور میں کچھ افسروں نے کرپشن کا بازار گرم کیا ہوا تھا اور کروڑوں روپے کی ادویات کی خریداری میں بڑے گھپلے ہوئے اس بارے میں حکومت پنجاب کو اب تک بھیجی جانے والی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر رائے محمد سمیع اللہ گٹ (سابق سی ای او ہیلتھ میانوالی) سابق اکاؤنٹنٹ فیصل حمید خان اور ڈسپنسر تاج محمد جو سٹور کیپر بنا دیا گیا تھا سے مجموعی طور پر 58953582 روپے کی ریکوری کی جائے اور ان کے خلاف پیڈاایکٹ 2006ء کے تحت ریگولر انکوائری کی جائے ان سفارشات میں حیرت انگیز انکشاف کیا گیا ہے کہ 493026655 روپے کی ادویات کی بوگس خریداری کی گئی اور اسی طرح ڈیمانڈ کے بغیر 10055900 روپے کی ادویات خریدی گئیں اور پیپرا رولز کو نظر انداز کر کے 38314016 روپے مالیت کی ادویات خریدی گئیں ان سفارشات میں دیگر کئی حیرت انگیز انکشافات بھی کیئے گئے ہیں
واقفان حال کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت ضلع شیخوپورہ میں مجموعی طور پر 40 کروڑ روپے حکومت پنجاب نے سرکاری شفاء خانوں کی ادویات کی خریداری کے لیے فراہم کیئے تھے مگر اس میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی تک سرکاری شفاء خانوں میں ان ڈور اور آؤٹ ڈور مریضوں کے لیے مطلوبہ ادویات کی دستیابی تو دور کی بات کئی شفاء خانوں میں عمومی طور پر استعمال ہونے والی اشیاء اور ادویات دستیاب نہ ہیں پرکشش عہدوں کے لیے افسروں کی رسہ کشی کے قصے اب عام شہریوں کے لیے نجی محفلوں کو زعفران زار بنانے کا باعث بن رہے ہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایم ایس کا عہدہ ہمیشہ ہی پرکشش رہا ہے اس سیٹ پر کام کرنے والے کئی لوگ تعمیر ومرمت ادویات کی مقامی خریداری لوکل ٹینکروں سے کروڑ پتی ہو کر گئے مگر مریضوں کی بددعائیں اور 3 فقرے بھی ان کے حصہ میں آئے اس کے برعکس دیانتدار ڈاکٹروں کو لوگ ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں حکومت پنجاب نے کئی برس تک اس ہسپتال میں بطور میڈیکل آفیسر کام کرنے والے ڈاکٹر افضال سندھیلہ کو میڈیکل سپریٹنڈنٹ تعینات کر دیا تو ان کے پیش رو سٹے آرڈر لے آئے جس کے بعد دن بھر ان کے درمیان کرسی چھوڑنے کرسی سنبھالنے کے جو واقعات ہوئے وہ انتہائی شرمناک ہیں اس ہسپتال کا نظام بہتر بنانے کے لیے انتہائی سخت اوردیانتدار ایڈمنسٹریٹر کی ضرورت ہے جس کی سینئر ڈاکٹرز بات سنیں بعض ڈاکٹروں نے تو اس ہسپتال کو اپنے نجی ہسپتالوں کے لیے مریضوں کی بکنگ کا دفتر بنایا ہوا ہے
محکمہ صحت میں کرپشن کہاں تک پہنچ چکی ہے؟ اس کو واضح کرنے کے لیے ایک مثال ہی کافی ہے سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے پیش رو کے دور میں ادویات کی سرکاری خریداری ہوئی تو اس وقت کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی جو بعداذاں کرپشن کیس کی زد میں آگئے منہ اٹھا کر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر چوہدری اصغر علی جوئیہ کو کمیشن کے 25 لاکھ روپے دینے پہنچ گئے جس پر وہ آگ بگولا ہوگئے اور انہوں نے آنے والے افسر کی سخت سرزنش کی تو پتہ چلا کہ یہ رقم دوا ساز کمپنیوں سے آچکی ہے اور تمام افسران اپنا حصہ بمطابق جثہ وصول پاچکے ہیں جس پر ڈپٹی کمشنر (موجودہ ایڈ یشنل سیکرٹری ) چوہدری اصغر علی جوئیہ نے اس رقم کو افسروں کے پیٹ کا مزید ایندھن بننے سے بچانے کے لیے ڈونیشن کی مد میں دیتے ہوئے اس سے دل کے مریضوں کے لیے 2 مشینوں کی خریداری کرنے کی ہدایت کی تھی واقفان حال کا کہنا ہے کہ یہ 2 مشینیں کہاں ہیں؟ ان کا پتہ لگوانے سے نئی حقیقت سامنے آجائے گی
تبادلوں کے جاری ریلے کے بعد محکمہ مال میں بھی کام کرنے والے افسروں کی محدود مدت میں ہی کروڑوں روپے کمائے جانے کی خبریں سننے میں آ رہی ہیں لینڈ مافیاااور انکوائریوں نےبعض افسروں کو کروڑ پتی بنا دیا ہے اس ضلع میں 80 سے زیادہ جعلی ہاؤسنگ کالونیاں وفاقی اور صوبائی حکومت کے جاری کردہ ایس او پیز اور بائی لازء کے بالکل برعکس بنائی گئی ہیں جو بلدیاتی اداروں اور محکمہ مال کے بڑے افسروں کے لیے کمائی کا ذریعہ ہے جس کو ختم کرنے کے لیے سابق ڈپٹی کمشنر محترمہ کرن خورشید نے ان کالونیوں کے گیٹوں کو مسمار کروا کر ان کے پلاٹوں کی خریدوفروخت بند کروا دی تھی مگر اس کے بعد ایسا نہیں ہوا ضلع کونسل سےاس ریلہ میں ایسے افسر تبدیل ہوگئے ہیں جو اس ضلع میں سن بلوغت کے بعد تعینات ھوئے اور پھر اسی ضلع میں بوڑ ہائے میں قدم رکھا، اور ارب پتی ان کے نام کا لاحقہ بن گیا تھا اب بھی بلدیاتی اداروں محکمہ ماحولیات محکمہ مال اور پولیس کے ایسے افسروں اور ملازمین کے تبدیل ہونے کا امکان ہے جن کے ہاں کرپشن نعوذ باللہ کوئی برائی نہ ہے اس بارے میں شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے وزیر قانون چوہدری خرم شہزاد ورک ایڈووکیٹ کافی حد تک فعال ہیں اور وہ محکمہ مال محکمہ ماحولیات پولیس سوشل ویلفیئر لیبر ویلفیئر صحت ایجوکیشن وغیرہ کے علاوہ بلدیاتی اداروں کے کرپٹ افسروں سب رجسٹراروں کے بارے میں حکومت پنجاب کو مسلسل آگاہ کر رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ گاؤں گھنگ میں ایک ہی ترقیاتی منصوبہ کی دو مرتبہ ادائیگی کر کے سرکاری خزانے کو کم و بیش 4 کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے والے محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے افسروں اور عملے کے بارے میں بھی حکومت پنجاب کو آگاہ کردیا گیا ہے میری کوشش ہے کہ ضلع شیخوپورہ میں ہونے والے تمام ترقیاتی کاموں کی نیسپاک سے تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کروائی جائے انہوں نے بتایا کہ محکمہ لوکل گورنمنٹ کا ایک ریٹائرڈ ملازم بھی اب ایک پارٹی کے ساتھ مل کر ٹینڈروں کے بغیر ترقیاتی کام کروانے کے سکینڈل میں ملوث ہے ترقیاتی کام وہی ہوگا جس کا اخبار میں اشتہار آئے گا اور پیپرا رولز پر سو فیصد عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا ابھی اور کرپٹ افسروں نے بھی ضلع بدر ہونا ہے