شیخوپورہ کی ڈائری
از قلم شیخ سہیل آحد
مؤرخہ 24 نومبر 2022ء
انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں ہمیشہ ہی تبدیلی کی اور انہیں نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی گنجائش موجود رہتی ہے مگر وطن عزیز میں نیب آرڈی ننس 1999ء میں اس کو سیاسی مقاصد کے استعمال سے روکنے کی خاطر جس انداز سے تبدیلیاں کی گئی ہیں اس سے کرپشن مافیا شتر بے مہار ہوتا جا رہا ہے اور اس مافیا میں سزاء کا خوف بھی ناپید ہونا شروع ہوگیا ہے چند روز قبل سندھ کے علاقہ مٹیاری موٹروے کی اراضی کے لیے زمینوں کی ایکوزیشن کے دوران کم و بیش چار ارب روپے کی کرپشن کے مبینہ الزامات میں ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کی گرفتاریوں کی باز گشت سنائی دے رہی تھی کہ شیخوپورہ میں لاہور اسلام آباد موٹر وے کی تعمیر کے لیے ہونے والی نجی زمینوں کی ایکوزیشن کے دوران ہونے والی مالی بدعنوانیوں کے سکینڈلز کی یاد بھی تازہ ہوگئی ہے جس کی ایک انکوائری ابھی تک سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کی ہدایت پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کلیکٹر سابق لینڈ ایکوزیشن کلیکٹر اور موجودہ تحصیلدار گوجرانوالہ کے خلاف کر رہے ہیں موٹروے کی تعمیر کے دوران بھی مٹیاری کیس کی طرح کئی زمینوں کی کئی گنا زیادہ قیمتیں لگا کر قومی خزانہ کو خوب چونا لگایا گیا اور کئی جگہوں پر تو محاورتاً بنجر زمینوں کو قیمتی پھلوں کے باغات، بڑی بڑی عمارتیں اور ڈیری فارم ظاہر کر دیا گیا اور اب تک جو مذکورہ انکوائری زیر سماعت ہے اس میں بھی لینڈ ایکوزیشن کلیکٹر پر غیر آباد زمین کو پٹرول پمپ ظاہر کرنے کا الزام ہے موٹروے کی تعمیر کے لیے زمینوں کی ایکوزیشن کے دوران بدعنوانیوں کے مرتکب کئی افسروں اور سیاسی رہنماؤں کو جیل یاترا بھی کرنا پڑی اور نیب عدالتوں سے سزاؤں اور جرمانے کا حکم بھی ہوا مگر ستم یہ ہے کہ اب ایسے کئی لوگ معززین کی فہرست میں شامل ہیں لیکن نیب قوانین میں ترامیم ہو جانے کے باعث کچھ لوگوں کی اربوں روپے کی کرپشن پر مٹی پڑ گئی ہے مگر سرکاری مشینری میں اس کا اثر یہ ہے کہ اب اپنی اولادوں کو حرام کی کمائی سے پالنے والے لوگ بلاخوف و خطر بعض ڈپٹی کمشنروں اور بعض اسسٹنٹ کمشنروں کی بغلوں میں کام کرنے والی برانچوں میں بیٹھ کر رشوت اکٹھی کرتے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان برانچوں میں تو اب جعلی ٹیکس فائلرز بھی تیار کیئے جاتے ہیں جس سے وفاقی و صوبائی ٹیکسوں کی مد میں حکومت کو ماہانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے نئے افسروں کی تعیناتی کے بعد بھی کرپشن مافیا کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال کیئے جانے کی امید دن بدن دم توڑ رہی ہے ضلع شیخوپورہ کا شمار جرائم کے بعد کرپشن کے حوالے سے بھی پنجاب کے ٹی ٹی سی یعنی ٹاپ ٹین سٹیز میں ہوتا ہے چند برس قبل سابق جسٹس لاہور ہائی کورٹ مرحوم و مغفور چوہدری سردار محمد ڈوگر اور سابق جسٹس خان خلیل الرحمنٰ خان نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن شیخوپورہ کا دورہ کیا تو انہوں نے اپنی تقاریر میں بڑے دکھ کے ساتھ کہا کہ کرپشن کا ناسور ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھائے جا رہا ہے اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ ناسور اب عدالتوں میں سرایت کر رہا ہے جس کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے ورنہ معاشرے میں ہونے والے عدم توازن اور بگاڑ کو روکنا ناممکن ہوگا دونوں جسٹس صاحبان کے فرمودات آج بالکل درست کھائی دے رہے ہیں اور نظام انصاف انتہائی مہنگا اور مشکل ہوچکا ہے
ضلع شیخوپورہ میں قومی تعمیر کے دیگر محکموں کی طرح بلدیاتی اداروں میں بھی کرپشن اور کوٹیشن سسٹم کے ذریعے سرکاری خزانے کو لوٹنے کاسلسلہ رکنے کی بجائے بڑھ گیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت پنجاب نے تمام اضلاع کو بلدیاتی اداروں کے علاوہ محکمہ سکول ایجوکیشن، محکمہ ہائیر ایجوکیشن اور محکمہ صحت میں درجہ چہارم کے ملازمین بھرتی کرنے کی اجازت دے دی ہے یہ بھرتیاں سفارشی چٹوں، کوٹہ سسٹم یا پھر اوپن میرٹ کی بنیاد پر ہوں گی اس کا فیصلہ راوی کے بقول ابھی تک نہ ہوا ہے مگر سزاء سے بے خوف افسروں نے بھاری رقوم ایڈوانس ہی پکڑنا شروع کر دی ہیں جس کی ایک مثال گذشتہ ہفتے کے دوران اس وقت سامنے آئی جب لاہور سے ملحقہ شیخوپورہ کی میونسپل کارپوریشن فیروز والا پر سول جج رانا محمد سہیل خان کی نگرانی میں سرکل آفیسر اینٹی کرپشن اور ان کی ٹیم نے چھاپہ مارا اور 50 ہزار روپے رشوت لیتے ہوئے چیف آفیسر محمد منشاء احسن کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جس نے بے روزگاری کے ستائے ہوئے ایک نوجوان محمد بلال نصیر کو درجہ چہارم کی چوکیدار کی سیٹ پر بھرتی کرنے کا سودا چار لاکھ روپے میں طے کیا تھا اور 50 ہزار روپے ایڈوانس مانگے تھے ضلع شیخوپورہ میں درجہ چہارم کے لیے 3 سو ملازمین بھرتی کیئے جانے کا پروگرام بنایا گیا ہے مگر اس کے لیے کم و بیش پندرہ ہزار سے زیادہ امیدوار سامنےے آئے ہیں جن میں بڑی تعداد میں ماسٹر ڈگری ہولڈرز کی ہے
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اب ضلع شیخوپورہ میں سال 2001ء سے لے کر 2018ء تک لاکھوں روپے رشوت کے عوض ہونے والی یونین کونسلوں کے سیکرٹریوں کی جعلی بھرتیوں کے علاوہ شرقپور شریف، فاروق آباد، فیروز والا، مریدکے، خانقاہ ڈوگراں، مانانوالہ، نارنگ منڈی اور دیگر بلدیاتی اداروں میں ترقیاتی کاموں کے نام پر گذشتہ دس برس کے دوران کروڑوں روپے کی خردبرد کی تحقیقات بھی شروع کی جا رہی ہے جس کے لیے جعلی بھرتیوں اور ترقیاتی کاموں کا ریکارڈ طلب کر لیا گیا ہے جس کے مطابق ترقیاتی کاموں کی نہ صرف فزیکل چیکنگ کی جائے گی بلکہ اس ریکارڈ کا دوسرے محکموں میں ہونے والے ترقیاتی کاموں سے موازنہ بھی کیا جائے گا
پی پی 139 کے ضمنی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اور آستانہ عالیہ شرقپور شریف کے سجادہ نشین صاحبزادہ میاں محمد ابوبکر شرقپوری کی ناکامی اور اس سے قبل انتخابی مہم کے دوران اس حلقہ میں ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں روپے کی خرد برد کے قصے زبان زد عام تھے جن کی تصدیق گذشتہ ہفتے کے دوران مٹیاری سندھ موٹر وے کیس کی طرح محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ شیخوپورہ میں بھی ترقیاتی کاموں کے نام پر بوگس ادائیگیوں کا مقدمہ درج ہو جانے پر ہوئی ہے واقفان حال کاکہنا ہے کہ نہ صرف پی پی 139 بلکہ دیگر کئی قومی اور صوبائی حلقوں میں بھی ترقیاتی کاموں کے نام پر وسیع پیمانے پر سرکاری فنڈز کی ہونے والی خرد برد کی اینٹی کرپشن کے حکام تحقیقات کر رہے ہیں پی پی 139 میں ترقیاتی فنڈز کو جس طرح بوگس بلوں کے ذریعے ہڑپ کیا گیا ہے وہ نہ صرف حکومت بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ بوگس بلوں کے ذریعے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے ایکسین میاں مدثر، ایس ڈی او وسیم الدین اور دیگر حکام کے علاوہ ایک فرضی کنسٹرکشن کمپنی کے خلاف درج کیا گیا ہے اور اس بارے میں وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے تاکہ کرپشن میں ملوث افسروں کو دوبارہ فیلڈ ڈیوٹی دی جائے اور نہ ہی انہیں اربوں روپے کے سرکاری فنڈز کے استعمال کی مجاز اتھارٹی بنایا جائے اور اب پی پی 139 کے سابق ایم پی اے صاحب زادہ میاں جلیل احمد شرقپوری نے بھی چیف سیکرٹری پنجاب کو شکایت کی ھے پی پی 139 میں اب تک ھونے والے کا میں کے بارے میں انکو آگاہ کیا جائے سنا ھے کئی ھفتے گزر جانے کے باوجوداس در خواست پر دو تین محکمے کاروائی نہ کر رھے اور ابھی چیف سیکریٹری کو اس درخواست کا جواب نہیں دیا گیا،؟،