شیخوپورہ کی ڈائری
از قلم شیخ سہیل آحد
مؤرخہ 8 فروری 2023ء
حکومت پاکستان کی طرف سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھیجی جانے والی رپورٹوں میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ایسے سانحات ہونے کے خدشہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا افغانستان میں موجودہ دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں کے کمانڈروں کے اجلاس میں جو منصوبے تیار کیئے گئے ہیں وہ پاکستان میں خوف و حراس پھیلانے اور عدم استحکام کے لیے ہیں ان منصوبوں کا بنیادی مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور عوام میں خوف پیدا کرنا ہے حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گذشتہ اور اس سے پیوستہ ہفتہ کے دوران موصولہ رپورٹس کی بنیاد پر جن دہشت گردوں کے خطرناک منصوبوں اور کالعدم تحریک طالبان کے مختلف گروپوں اور کمانڈروں کے مذموم اور گھناؤنے عزائم کے بارے میں آگاہ کیا ہے اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں افغانستان کے علاقہ پکتیا میں ایسٹ ترکمانستان اسلاملک موومنٹ کے کمانڈر خالد سیف اللہ، کالعدم تحریک طالبان کے ایک گروپ کے کمانڈر اسحاق جلال اور بی ایل اے کے کمانڈر صوفی بلوچ سمیت متعدد انتہاء پسندوں کا اجلاس ہوا ہے جس میں ارض پاک پاکستانپر دہشت گردی کے کئی منصوبے تیار کیئے گئے ہیں اور اس مقصد کےلیے 50 کے لگ بھگ ٹارگٹ کلرز کا ایک سیل بھی بنایا گیا ہے جو پاکستان میں دوست ممالک کی مدد سے جاری ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ دیگر احداف کو بھی ممکنہ طور پر نشانہ بناسکتا ہے اس صورتحال کے تناظر میں پاکستان کے حالات دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک طرف قومی معیشت ڈانوانڈول ہے اور ہم آئی ایم ایف کی کڑی سے کڑی شرائط کو بھی سرخم تسلیم کرنے کو تیار ہوگئے ہیں جس کی ذمہ داری ایک دو حکومتوں پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ کئی عشروں سے جاری لوٹ کھسوٹ کے نظام نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے اور آج بھی قومی قیادت اس صورتحال سے نکلنے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنے کو تیار نہیں پی ڈی ایم والے جو اقتدار میں آنے سے قبل شدومد کے ساتھ فوری انتخابات کروانے کا مطالبہ کر رہےتھے اب انتخابات کو ملتوی کرنے کی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں اور ایسے جواز تلاش کیئے جا رہے ہیں جن سے انتخابات ملتوی کرنے میں مدد مل سکے جو یقیناً غیر آئینی راستہ ہوگا اس صورتحال میں قوی رہنماؤں کے درمیان اتحاد اور رواداری کی فضاء قائم کرنے کی ضرورت ہے مگر ان کے درمیان جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے عمران خان کو کم و بیش ان حالات کا سامنا ہے جن سے ان کے دور حکومت میں اپوزیشن دو چار تھی ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنانے اور ان کی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تضحیک کروانے کی وجہ سے قومی اتحاد کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے عمران خان کی “الیکشن کراؤ ملک بچاؤ” ریلیوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے کہ اس دوران ہی انہوں نے پنجاب اور کےپی کے میں انتخابات کی تاریخ نہ دینے کی صورت میں “جیل بھرو تحریک” چلانے کا اعلان کر دیا ہے واقفان حال اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کی جیلوں میں اوسطاً گنجائش سے دو تا اڑھائی گنا زیادہ اسیران بند ہیں جن میں سے امیر زادوں کو تو جیلوں میں بھی گھر جیسی سہولتیں حاصل ہیں مگر عام قیدی کی جو جیل میں حالت ہے وہ انتہائی قابل رحم ہے شیخوپورہ کی جیل کی مثال دی جائے تو اس جیل میں ہر سطح پر سہولت حاصل کرنے کے لیے قیدیوں کے لواحقین کو بھاری رقوم کا بندوبست کرنا پڑتا ہے ماضی میں ان قیدیوں کی کمائی کھانے والے کئی افسران کو عبرت ناک انجام سے دوچار ہونا پڑا مگر اس کے باؤجود زیادہ تر افسر قیدیوں کے لیے اپنے دلوں میں نرم گوشہ نہ رکھتے ہیں برصغیر میں انگریزوں سے آزادی پانے کے لیے جیل بھرو تحریک چلائی گئی تھی 5 جولائی1977ء کو پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے نتیجہ میں ملک میں جنرل ضیاء نے مارشل لاء نافذ کیا تو ابتدائی طور پر پاکستان قومی اتحاد کی جنرل ضیاء کو حمایت حاصل تھی اس مارشل لاء کے خلاف باضابطہ طور پر پہلی منظم تحریک پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم سے صحافیوں نے چلائی جس کو دیکھ کر صاحبان اقتدار و اختیارات نے صحافیوں کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیا جس کے بعد آج تک پی ایف یو جے دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران لاہور جیل میں بند ہونے والے سیاسی رہنماؤں میں شامل پیپلز پارٹی کے رہنماء ملک رضا خان جمالی کا کہنا ہے کہ پی ایف یو جے کے رہنماء مرحوم و مغفور نثار عثمانی جیل میں سیاسی کارکنوں کے جوتے پالش کرنے میں بھی عار محسوس نہ کرتے تھے اور انہیں حوصلہ دیتے کہ جلد مارشل لاء کے سیاہ بادل چھٹ جائیں گے پی ایف یو جے نے 1978ء میں کراچی سے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا جس وقت کوئی سیاسی جماعت مارشل لاء کے سامنے کھڑی ہونے کو تیار نہ تھی اب دوسرے شہروں کی طرح ضلع شیخوپورہ میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے عمران خان کی اپیل پر جیل بھرو تحریک کے سلسلہ میں اپنے ناموں کی رجسٹریشن کروانا شروع کر دی ہے جبکہ دوسری طرف الیکشن کراؤ ملک بچاؤ کے سلسلہ میں پی پی 138 / 139 کے متوقع امیدوار چوہدری محمد اویس عمر ورک کی قیادت میں ان کے آبائی قصبہ کلہ ورکاں سے گذشتہ ہفتے کے دوران ایک بڑی ریلی نکالی گئی جس میں شامل سینکڑوں گاڑیوں پر ہزاروں کارکن سوار تھے اس ریلی نے اڈہ کوٹ عبدالمالک لاہور روڈ پر پہنچ کر احتجاجی جلسہ کی شکل اختیار کر لی جس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری محمد اویس عمر ورک نے کہا کہ پی ڈی ایم کے دور میں پاکستان ہر روز نئے مسائل سے دوچار ہو رہا ہے امپورٹڈ حکومت کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ وہ ملک چلانے میں ناکام ہوگئی ہے انہوں نے کہا کہ ملک کے مسائل کا صرف ایک ہی حل ہے کہ غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی نگرانی میں منصفانہ انتخابات کروائے جائیں حکمران الیکشن کو ملتوی کرنے کے جو حیلے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں وہ آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتے ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ان شاء اللہ اگلے انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوگی ماضی گواہ ہے کہ جن جماعتوں کو جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی وہ پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہوئیں قبل ازیں شیخوپورہ کے مختلف علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں چوہدری کنور عمران سعید خان ایڈووکیٹ، چوہدری محمد طیاب راشد سندھو ایڈووکیٹ سردار سرفراز ڈوگر، رانا علی سلیمان خان ایڈووکیٹ، علی اصغر منڈا، خان شیر اکبر خان، عمر آفتاب ڈھلوں، خرم اعجاز چٹھہ اور ملک اقبال احمد خان کی قیادت میں بھی الیکشن کراؤ ملک بچاؤ ریلیاں نکالی گئیں۔