420

کالم محسن انسانیت ﷺ کے عطا کردہ انسانی حقوق

تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ

اگر آپ اقوام متحدہ کے ”انسانی حقوق کا عالمی علامیہ“ اور جمہوری ممالک خصوصا پاکستان کے آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کا مطالعہ کریں تو آپکو انتہائی خوشگوار حیرت محسوس ہوگی کہ زمانہ جدید میں بنیادی انسانی حقوق طے کرتے وقت نبی کریم ﷺ کے خطبہ حجتہ الوداع سے رہنمائی لی گئی ہے۔ آپ کی صحبت میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے 10 ہجری میں حج اداکیا۔9 ذوالحجہ کو نبی کریم ﷺ نے وادی عرفات میں خطبہ حجتہ الوداع ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ نبی کریم ﷺ کا آخری وعظ تھا۔ درحقیقت 14 صدیاں پہلے یہ خطبہ محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ کی جانب سے بنی نوع انسان کے لئے بنیادی انسانی حقوق کا اجراء تھا۔ اس عظیم خطبہ میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

ہاں! میں نے آج جاہلیت کے تمام دستوروں کو اپنے پاؤں تلے کچل دیا ہے۔ اللہ عزوجل نے تم سے جاہلیت کی گمراہیاں دور کردیں۔ نسبی فخر مٹا دیئے۔ مومن متقی اور فاجر شقی ہے۔ آج کے بعد عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کسی قسم کی فضلیت نہیں۔ انسان سب آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے تمام مسلمان ایک ہی برادری ہیں۔ اے لوگو! اپنے غلاموں کا خیال کرو جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ۔ جو خود پہنو وہی انکو پہناؤ۔ جاہلیت کے خون کے دعوے سب کے سب باطل کردئیے گئے۔ سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا خون یعنی ربیعہ بن الحارث کے بیٹے کا خون باطل کرتا ہوں۔ جاہلیت کے تمام سود بھی باطل کرتا ہوں۔ عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔ تمہارا خون اور تمہارا مال اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ دن اس مہینے میں اور اس شہر میں حرام ہے تاآنکہ تم (بروز قیامت) اپنے پروردگار سے جاملو۔ میں تم میں ایک چیز چھوڑ رہا ہوں اگر تم نے اسکو مضبوطی سے پکڑا تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے وہ چیز اللہ عزوجل کی کتاب یعنی قرآن مجید ہے۔ اللہ نے ہر حق دار کو ازروئے قانون وراثت اسکا حق دے دیا۔ اب کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ لڑکا اسکا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا۔ زانی کے لئے پتھر ہے اسکا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کے نسب سے ہونے کا دعویٰ کرے اور جو غلام اپنے مولا کے سوا کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے اس پر اللہ کی لعنت۔ ہاں عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اسکی اجازت کے بغیر کچھ لینا جائز نہیں۔ قرض ادا کیا جائے۔ ادھار واپس دیا جائے۔ عطیہ لوٹا دیا جائے۔ ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے اور ہاں! میرے بعد گمراہ نہ ہوجاناکہ خود ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ تم کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بازپرس کرے گا۔ ہاں! مجرم اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہے۔ باپ کے جرم کا ذمہ دار بیٹا اور بیٹے کے جرم کا ذمہ دار باپ نہیں۔ اگر کوئی ناک کٹا حبشی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو اللہ کی کتاب کے مطابق لیکر چلے تو اسکی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔ ہاں! شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا کہ تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) میں قیامت تک پھر کبھی اسکی پرستش نہیں کی جائے گی۔لیکن تم چھوٹی چھوٹی باتوں میں اسکی پیروی کروگے اور وہ اس پر خوش ہوگا۔ اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ پانچوں وقت کی نماز پڑھو۔ مہینے(رمضان) کے روزے رکھا کرو اور میرے احکام کی اطاعت کرو، اللہ کی جنت میں داخل ہوجاؤگے۔مذہب میں غلو اور مبالغے سے بچے رہنا کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی سے برباد ہوئیں۔ خطبہ دینے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے لوگوں سے مخاطب ہوکر پوچھا: ”ہاں! کیامیں نے اللہ کا پیغام سنا دیا؟“۔ لوگوں نے جواب دیا: ”ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ“۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ تو گواہ رہیو۔ آپ ﷺ نے پھر پوچھا: ”تم سے اللہ کے ہاں میری بابت پوچھا جائے گا تم کیا کہوگے؟“۔مسلمانوں نے عرض کیا کہ ہم کہیں گے کہ آپ ﷺ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کیا اسکے بعد آپ ﷺ نے آسمان کی طرف تین دفعہ انگلی اُٹھا کر تین دفعہ کہا کہ ”اے اللہ تو گواہ رہیو“۔ جس روز نبی کریم ﷺ نے عرفات میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا اسی دن اللہ کی طرف سے انہیں وحی کے ذریعے حسب ذیل پیغا م ملا: ”آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کرلیا (پارہ 6، سورۃ المائدہ آیت نمبر 3)“۔ حج ادائیگی کے بعد مدینہ کی طرف لوٹتے وقت آپ ﷺ نے غدیر خم کے مقام پر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے سامنے ایک مختصر سا خطبہ دیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! میں بھی بشر ہوں ممکن ہے اللہ کا فرشتہ جلد آجائے اور مجھے قبول کرنا پڑے، میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتا ہوں، ان میں سے ایک تو کتاب اللہ ہے جس کے اندر ہدایت اور روشنی ہے، پس اللہ کی کتاب کومضبوطی سے پکڑو اور اس سے چمٹے رہو۔ دوسری چیزمیرے اہل بیت ہیں۔ اپنے اہل بیت کے بارے میں، میں تم کو اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔

نبی کریم ﷺ کی جانب سے عطا کردہ بنیادی انسانی حقوق روز قیامت تک آنے والی بنی نوع انسانی اور خصوصا مسلمانوں کے لئے ذریعہ نجات ہیں۔ اللہ کریم سب مسلمانوں کو باہمی اتحاد اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر من و عن پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کی کروڑہا رحمتیں نازل ہوں نبی کریم ﷺ پر آپ کی اہل بیت پر اور آپ کے اصحاب کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین پر۔آمین ثم آمین (بحوالہ تاریخ اسلام)

اپنا تبصرہ بھیجیں