کالم : وقت عمران خان سے اور بھی سچ اُگلوائے گا
تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ
اتوار 30 اکتوبر جی ٹی روڈ مریدکے میں لانگ مارچ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ نواز شریف کرپٹ ہے، زرداری چور ہے، یہ اسٹیبلشمنٹ نے مجھے بتایا۔ عمران خان نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہی نے نواز شریف اور زرداری پر مقدمات بنوائے تھے اور اسٹیبلشمنٹ ہی نواز شریف اور زرداری کو کرپٹ اور چور کہا کرتی تھی اور اب انہی چوروں اور ڈاکوؤں کا ساتھ دے رہی ہے۔ مسند اقتدار سے آئینی طریقہ کار سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان کی جانب سے پاکستانی عسکری قیادت پر حملوں کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ مسند اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ہر گزرتے لمحے عمران خان کے رویے اور لہجے میں تلخی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ لاہور میں یوٹیوبرز سے گفتگو کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف سے عمران خان کے لانگ مارچ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ادارے نے سوچا ہوگا عمران خان کو سپورٹ کرتے ہیں شاید پاکستان کی حالت بہتر ہو جائے لیکن جس ادارے نے عمران نیازی کو پالا اس نے اسی کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا، ڈائن بھی تین گھر چھوڑ کر حملہ کرتی ہے لیکن عمران نیازی نے افواج پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کیے۔ انہوں نے کہا کہ دھکا اسٹارٹ گاڑی بھی چل پڑتی ہے مگر عمران خان نہیں چل پائے، عمران خان نے پاک فوج کے جوانوں اور شہدا کو بھی نہیں چھوڑا، لوگوں کے گھر والوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا، میں سمجھتا ہوں کہ جو وطن کا نہیں وہ کسی کا نہیں۔ عمران خان کے بیان کے ردعمل میں ن لیگ کے سینئر رہنما پرویز رشید نے کہا ہے کہ عمران صاحب نے آج ایک اور اعترافِ گناہ بھی کر لیا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اعتراف کیا کہ نواز شریف اور جمہوری قیادتوں پر اُن کی بہتان تراشی حقائق پر مبنی نہیں بلکہ آمریتوں کی جانب سے دی گئی ڈکٹیشن تھی۔ ن لیگی رہنما نے مزید کہا کہ جسے عمران خان اپنی 26 سالہ جدوجہد کہتے ہیں آج اسی کو غیروں سے سُنا سُنایا جھوٹ تسلیم کر رہے ہیں۔ پرویز رشید نے یہ بھی کہا کہ ابھی وقت عمران خان سے اور بھی سچ اُگلوائے گا۔ عمران خان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ پر تابڑ توڑ حملوں کے بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے الزامات کو میڈیا کے سامنے کھل کرباطل قرار دے دیا ہے اور ساتھ ہی عمران خان کے دو رخی اور دو رنگی رویوں کو منظر عام پر لائے ہیں کہ جن مقتدر شخصیات کو آپ دن کی روشنی میں میر جعفر، میر صادق اور غدار قرار دیتے ہیں انہی سے رات کے اندھیروں میں خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں کسی بھی سیاسی رہنما کی جانب سے پاکستانی عسکری اداروں کے خلاف جتنے بیانات عمران خان نے دیے ہیں انکی مثال نہیں ملتی۔عمران خان کے یوٹیوب پر بیانات اس بات کی گواہی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اقتدار ملنے سے پہلے اور اقتدار کھو جانے کے بعد عمران خان کے عسکری اداروں کے خلاف بیانات میں مماثلت اتفاقیہ نہیں ہے۔ حیرانی تو اس بات پر ہورہی ہے کہ عمران خان کو مسند اقتدار پر پہنچانے کے لئے اپنا کندھا دینے والوں کو آخر عمران خان کے اندر ایسی کونسی خوبی نظر آئی تھی؟ شہباز شریف کی اس بات میں بہت وزن نظر آتا ہے کہ جس ادارے نے عمران نیازی کو پالا اس نے اسی کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا، ڈائن بھی تین گھر چھوڑ کر حملہ کرتی ہے۔کیونکہ عمران خان اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ انکو مسند اقتدار میں پہنچانے میں کس نے کیا کردار ادا کیا۔ اگر عمران خان اس بات کا گمان کرتے ہیں کہ انکی 22 سالہ سیاسی محنت نے انکو ایوان وزیراعظم تک پہنچایا تو یہ مبالغہ آرائی ہوگی۔ کیونکہ عمران خان کی سیاست شوکت خانم ہسپتال اور 1992 کے ورلڈ کپ کی کامیابی کے گرد ہی گھومتی ہے جس کا اظہار آج تک عمران خان اور انکی پارٹی کرتی آئی ہے۔ یاد رہے اگر ان دونوں کارناموں کی بناء پر عمران خان نے وزیراعظم بننا ہوتا تو عمران خان 1996 ہی میں مسند اقتدارپر براجمان ہوچکے ہوتے، آخر اس وقت کی نوجوان نسل اور پوری پاکستانی قوم جس نے عمران خان کے ان دونوں کارناموں کو اپنی آنکھوں کے سامنے شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے دیکھا تھا، عمران خان کو اک قومی ہیرو کے طور پر تو قبول کیا لیکن انتخابات میں وزیراعظم پاکستان کے عہدے کے لئے ناقابل قبول شخصیت قرار دے کر انتخابات میں مسترد کیوں کیا؟ مریدکے میں عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیان خود انکے کردار کی نفی کرتا دیکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ مشرف کے سب سے بڑے حامی کے طور پر عمران خان منظر عام پر آئے تھے۔ یاد رہے نواز شریف کے خلاف مشہور زمانہ پانامہ کیس خود عمران خان نے نواز شریف کے دور اقتدار ہی میں سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔ عمران خان کے دور اقتدار میں ن لیگ اور پی پی پی قیادت کے خلاف مقدمات اور گرفتاریاں۔ اور مریدکے میں عمران خان کے اعترافی بیان کہ نواز شریف،مریم نواز سمیت ن لیگی اور پی پی پی قیادت کے خلاف پانامہ کیس اور اپنے دور اقتدار میں دیگر مقدمات عمران خان نے اسٹیبشلمنٹ کے کہنے پر دائر کروائے تھے؟۔درحقیقت عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ پر غصہ ”غیر سیاسی“ ہونے پرہے۔ ویسے عمران خان کتنے بھلکر ہیں جو اپنے بیانات، اعلانات بھول جاتے ہیں یا پھر میرے کپتان بہت ہی بھولے بھالے ہیں جن کو یہ پتا ہی نہ چلا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی بن کر پونے چار سال اقتدار کے مزے اُڑاتے رہے(کیونکہ عمران خان کے بیانات آن ریکارڈ ہیں کہ وہ بے اختیار تھے)۔ ایک بات طے شدہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیرمین عمران خان کی سیاسی زندگی قول و فعل کے تضادات سے بھرپور ہے۔