کالم : عمران خان صاحب کے مارخور
تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ
ایوان اقتدار سے نکالے جانے کے سات ماہ کے عرصہ میں عمران خان نے پاکستانی عوام اور خصوصاپی ٹی آئی کے چاہنے والوںکواپنےجذباتی بیانات و خطابات کے ذریعہ امریکی سازش اور پی ڈی ایم وفاقی حکومت کو امپورٹڈ حکومت ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ عمران خان نے پی ٹی آئی ورکرز کونہ صرف موبلائز کیا بلکہ پی ٹی آئی نوجوانوں کو بظاہر انقلابی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بھی بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وہی جنرل قمر جاوید باجودہ جنکی مدت ملازمت میں توسیع دینے کے لئے نہ صرف بھرپور لابنگ کی بلکہ پارلیمنٹ سے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم بھی کرڈالی۔بہرحال وقت وقت کی بات ہے۔ کہتے ہیں نہ کہ کبھی کے دن چھوٹے تو کبھی کی راتیں ۔پی ڈی ایم وفاقی حکومت کے خاتمہ کو یقینی بنانے کے لئے لانگ مارچ جسکو بعد میں آزادی مارچ کا نام دیا اور آخیر میں 26 نومبر کو اک جلسہ ہی ثابت ہوا۔ اس مارچ یا جلسہ میں عمران خان کے چاہنے والوں نے اس غرض سےجوق در جوق شمولیت اختیار کی کہ عمران خان روالپنڈی سے پیش قدمی کرتے ہوئے اسلام آباد جائیں گےاور پھر عظیم دھرنا اور احتجاج ہوگا جس کی بناء پر بالآخر پی ڈی ایم حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے گی ۔مگر وقت نے ثابت کیا کہ جلسہ کے بعد پی ڈی ایم حکومت ختم تو نہ ہوسکی بلکہ حیران طور پر عمران خان نےصوبائی اسمبلیوں کو توڑ نے کا اعلان کردیا۔یعنی وفاقی حکومت کے خاتمے کےلئے آنے والے خود اپنی صوبائی حکومتوں کو ختم کرنے کا اعلان کرکے گھروں کو چل دیئے۔ عمران خان کے چاہنے والے حسب عادت اپنےقائد کے اس فیصلہ پربھی واہ واہ بھلے بھلے شاوا شاواکرتے نظر آرہے ہیں۔ جناب عمران خان صاحب قسمت کے دھنی ہیں۔ کیونکہ انکے چاہنے والوں کی اکثریت یہ نہیں سوچتی کہ خان صاحب کیا کہ رہے ہیں کیا کررہے ہیں۔خان صاحب سیاہ کریں یا سفید ۔ بس جو خان صاحب نے کہ دیا تو کہ دیا۔ اللہ کے بندوں اگر صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کا اعلان سات ماہ بعد ہی کرنا تھا تو جب وزرات عظمیٰ سے خان صاب ہٹائے گئے اس وقت ہی صوبائی اسمبلیوں کا خاتمہ کیوں نہ کردیا گیا۔سادہ سا سوال کہ صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ یا صوبائی اسمبلیوں کے خاتمہ کی صورت میں وفاقی حکومت کا خاتمہ کس طرح ممکن ہوگا ؟کیونکہ آئین پاکستان کے مطابق کسی بھی ممبر کا صوبائی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کی صورت میں الیکشن کمیشن اس حلقہ میں ساٹھ دن کے اندر الیکشن کروادے گا۔ اور اسمبلی خاتمہ کی صورت میں الیکشن کمیشن نوے دن کے اندر الیکشن کروادے گا۔ بالفرض اگر صوبائی اسمبلیوں کے خاتمہ یا استعفیٰ دینے کی صورت میں وفاقی حکومت کا دھرن تختہ ممکن ہے تو پھر سابقہ وزیراعظم عمران خان کےبقول امپورٹڈ حکومت کو سات ماہ تک کیوں برداشت کیا گیا۔کروڑوں روپے کی لاگت سےسو سے زائد جلسے، وفاقی و صوبائی حکومتوں کے کروڑوں روپے سیکورٹی کی مد میں خرچ کروادیئے گئے۔ کیا پی ٹی آئی کارکنان اپنے عظیم قائد عمران خا ن صاحب سے سوال پوچھنے کی جسارت کریں گے۔ عمران خان سے سوال پوچھنا تو درکنار عمران خان کے غلط یاصحیح فیصلہ پر تنقید کرنے والوں پر گالی گلوچ شروع کردی جائے گی۔ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ عمران خان کے چاہنے والے عمران خان پر آنکھیں ہی نہیں بلکہ اپنا دماغ بھی بند کرکے اپنے قائد کے ہر اچھے بُرے فیصلہ پر سرتسلیم خم کرتے دیکھائے دیتے ہیں۔کل تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سواری کرتے ہوئے جناب عمران خان صاحب مسند اقتدار پر پہنچے ۔اور انہی اداروں کے سربراہان کی مدت ملازمتوں میں اضافہ کے لئے راہیں ہموار کرنے والے عمران خان کے ساتھی آج پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذ پرہراول دستہ کا کردار ادا کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ اگر بندہ ناچیز کے اس دعوی پر کسی کو شک ہو تو آپ عمران خان کے چاہنے والے اکثریتی افراد کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ (فیس بک، ٹیوٹر، یو ٹیوب وغیرہ) پر نظر دوڑالیں۔ عمران خان کے یہی جانثار ورکرز اپریل 2022 سے پہلے تک ففتھ جنریشن وار کے سپاہی بنے پھرتے تھے اور اپنے آپ کو “میں بھی مارخور ہوں” ” کے خود ساختہ القابات دیا کرتے تھے ۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کسی فرد کے خلاف کسی بھی قسم کی خبر پر خبر دینے والے صحافی کوکو غیر ملکی ایجنٹ ، غدار وطن کے فتوے جاری کردیا کرتے تھے۔ اور اللہ کی پناہ، آج یہی ففتھ جنریشن وار کے دوغلے سپاہی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پاکستان یا پاکستان سے باہر چھپنے والی خبر (چاہے وہ صحیح ہو یا غلط) کوثواب کا کام سمجھ کر اپنی سوشل میڈیاٹائم لائن کا حصہ بنا تے دیکھائی دیں گے۔عمران خان کے چاہنے والوں کی سیاسی منافقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی صحافی احمد نورانی نے عاصم سلیم باجوہ، عمران خان اور قمر جاوید باجوہ کے خلاف مالی کرپشن کی خبریں جاری کیں۔ عمران خان کے چاہنے والے عاصم سلیم باجوہ اور عمران خان کے خلاف خبروں کو جھوٹ اورمن گھڑت قرار دیتے رہےاور احمد نورانی کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیتے رہے۔ جبکہ یہی “نام نہاد مارخور” احمد نورانی کی قمر جاوید باجوہ بارے خبر کو سچا مان رہے ہیں۔ بندہ ناچیز یہ بات برے دعوے سے کہ سکتا ہے کہ آج اگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے عمران خان کے تعلقات اپریل 2022 سے پہلے طرز پر بحال ہوجاتے ہیں (یاد رہے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپکو ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کا اعلان کیا ہوا ہے) تو ففتھ جنریشن وار کے نام نہاد مارخور سپاہی (جو کہ درحقیقت صرف عمران خان کے مارخور ہیں) پھر سے اپنی سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر “میں مارخور ہوں” کے القابات لکھتے دیکھائی دیں گے۔ بہرحال یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عمران خان قسمت کا دھنی ہے کیونکہ عمران خان جتنے مرضی یوٹرن مارلیں یا اگرعمران خان خود بھی اپنے کسی جرم کا اعتراف کرلیں،لیکن عمران خان کے مارخور اپنے قائد کا ساتھ ہر صورت دفاع کرتے رہیں گے۔