کرائم کی کرنٹ سٹوری ہے
حکیم محمود بیگ نجی سیکیورٹی کمپنیاں محافظ ہیں یاپھررہزن؟
پولیس یونیفارم بدل گیا،تھانوں کو ماڈل تھانوں میں بدل دیا گیا لیکن پولیس کی چکربازیاں عام شہریوں کی سمجھ سے بالاتر ہوگئیں،سالہاسال سے حصول انصاف کے سسٹم پر سوالیہ نشانات لگتے رہے ہیں اورلگتے رہے گے جب تک پولیس کا ذمنی سسٹم درست نہیں ہوگا،معیاری تفتیش نہیں ہوگی ملزموں کے حوصلے بلند ہوتے رہے گے اورجرائم کی شرح میں نہ رکنے والا نان سٹاپ سلسلہ جاری رہے گا،پنجاب پولیس گلوبٹوں کے نام سے بھی اپنی پہچان رکھتی ہے،پنجاب پولیس کے شیر جوان قاتل کو مکھن میں سے بال کی طرح نکالنے کاہنر خوب جانتی ہے جس کے لیے روزمرہ کے واقعات اورنان سٹاپ سٹوریاں سننے میں لکھنے میں پڑھنے میں آتی رہتی ہیں،حکومت پنجاب کی طرف سے پولیس کی تنخواہوں کو بار بار بڑھایاجاتا ہے نفری کم بھی ہو24گھنٹے ڈیوٹیاں لی جاتیں ہیں من مرضی کے چھاپوں کی داستانیں رقم کی جاتی ہیں اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے متعدد افراد قتل کئے جاچکے ہیں عدل وانصاف کافقدان پر ہونے کانام ہی نہیں لیتا جس کی سب سے بڑی وجہ بھول جانا ہے قارئین اب بڑھتے ہیں اپنی اصل سٹوری کی جانب شہر شیخوپورہ کے پوش علاقہ طارق روڈ گیلانی سٹریٹ کے رہایشی محنت کش حبیب اللہ کی 27سالہ متعلقہ بیٹی جو سرگودھا روڈ شہباز شریف چلڈرن ہسپتال میں تیماری داری کے سلسلہ میں موجو د تھی جس کو مبینہ طور پر سیکورٹی گارڈز کاظم،عدیل اورحافظ وغیرہ نے زناکاری کے لیے ہسپتال سے سائلہ عزراں بی بی کی بیٹی مہوش معہ بیٹا عظیم اللہ کو ڈاکٹروں سے چیک اپ کروانے کے بہانے ورغلاپھسلا کر سیکورٹی گارڈز نے اغواکیاجسکا مقدمہ تھانہ صدر شیخوپورہ پولیس نے مغویہ کی والدہ عزراں بی بی کی تحریری درخواست پر مذکورہ ملزمان کے خلاف درج کرلیا اسی ضلع شیخوپورہ اوراندرون شہر اے ڈویژن پولیس نے بھی اسی مہوش بی بی دختر حبیب اللہ کا مقدمہ 174ت پ گھریلوں ناچاقی پر گندم میں رکھنے والی گولیاں کھاکر خود کشی کرنے کا بھی رپورٹ ہوا جس میں محمد اسلم گل اے ایس آئی نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ مہوش بی بی26سے27سالہ نے گھریلوں ناچاقی پر گندم میں رکھنے والی گولیاں کھالیں جس کو تشویشناک حالت میں ڈی ایچ کیوہسپتال شیخوپورہ سے لاہور کے میوہسپتاہل میں منتقل کیا جہاں پر وہ زندگی کی بازی ہار گئی،جس کی لاش کو مردہ خانہ میں ضروری کارروائی کے لیے منتقل کیا گیا اور174کی کارروائی کرکے آنکھوں میں مٹی ڈال دی گئی مہوش نے گندم میں رکھنے والی گولیاں کھاکر خود کشی کی یاپھر اسکا قتل اس لیے کیا گیا کہ سیکیورٹی گارڈز نے اس کو اغواکے بعد مبینہ زیادتی کانشانہ بنایا مہوش بی بی کے سویب ہسپتال کے عملہ نے لیکر نمونہ جات کو لاہور لیبارٹری میں بھیج دیا گیا انصاف میں جھول اورسست رویوں کی وجہ سے کئی معاملات الجھ جاتے ہیں جو نہ ہی کسی کی سمجھ میں آتے ہیں اورنہ ہی پولیس کی جانب سے بہترین طریقہ سے ان کو ہینڈل کیا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات طمع نفسانی کے لیے کئے جاتے ہیں؟یاپھر پولیس میں موجود تفتیشی افسر غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں کہ اصل مجرم تک پہنچتے پہنچتے مدعی کے جوتے پھٹ جاتے ہیں تبدیلی کب آئے گی؟تبدیلی سسٹم میں ہونے والی ہے یاپھر پولیس اصلاحات میں تبدیلوں کی اشد ضرورت ہے چند ماہ قبل تھانہ ماڈل سٹی اے ڈویژن کے علاقہ ڈی ایچ کیوہسپتال شیخوپورہ میں بھی ایک سیکیورٹی گارڈ نے ماں کی تیماری داری کرنے والی دوشیزہ کو بہانے سے چھت پر بلا کر اس سے مبینہ زیادتی کرنے کی کوشش کی گئی اورلڑکی کو ڈرایا دھمکایا گیا کہ اگر اس نے آواز نکالی تواسے چھت سے گرادیا جائے گا مارئے خوف کے بنت حوا نے چپ سادھ لی اورملزم بوس وکنار کرکے وہاں سے شور ہونے پر فرار ہوگیا،یادرہے کہ مقدمہ مدعی کی جانب سے نجی سیکورٹی گارڈ سپروائزر کے خلاف زیادتی کرنے اورسنگین نتائج کا مقدمہ تھانہ ماڈل سٹی اے ڈویژن میں درج کروایا گیا لیکن پولیس نے ملزم کو گرفتار کرنے کے بجائے سست روی کامظاہرہ کیا مقدمہ میں سیکیورٹی گارڈ کے ساتھ ہسپتال میں کام کرنے والی ایک اورملازمہ کو بھی نامزد کیاگیا لیکن حصول انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے والی شریف فیملی وقت کے ساتھ ساتھ خاموشی سے بیٹھ گئی اور بااثر افراد کی پشت پناہی کی وجہ سے سیکیورٹی کمپنی کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ لائے جانے کی تسلسل کی وجہ سے ایک بار پھر سرکاری گورنمنٹ شہباز شریف چلڈرن ہسپتال میں متعلقہ خاتون کواغوا کرنے والوں میں نجی کمپنی کے سیکیورٹی گارڈذ کونامزد کیا گیا ہے ملزمان کو پولیس نے ابھی تک گرفتارنہ کیاتھا کہ اچانک ہی مہوش کی گندم والی زہریلی گولیاں کھاکر خود کشی کرنے کاواقعہ بھی رپورٹ ہوگیا اور مہوش کے اغوا کا مقدمہ تھانہ صدر شیخوپورہ میں درج کیا گیا اوراسی مہوش کی خود کشی کا مقدمہ تھانہ ماڈل سٹی اے ڈویژن پولیس نے بھی درج کیا کیا پولیس اتنی سادہ لوح ہے کہ ایک تھانہ میں مقدمہ اغوا کا درج ہوتا ہے اوراسی ضلع کے قریب ترین ماڈل تھانہ سٹی اے ڈویژن میں گھریلوں ناچاقی کی بنا پر گندم میں رکھنے والی گولیاں کھاکر خودکشی کرنے کا واقعہ رپورٹ ہوتاہے قارئین تفتیش کا فقدان ہے یاپھر طمع نفسانی ہے کہ بنت حوا کی موت کے اصل حقائق کو چھپانے کی کوشش کی جاری ہے ڈی پی اوشیخوپورہ بلال ظفر شیخ حال ہی میں شیخوپورہ کے شہریوں کو اپنا ویڈیو بیان جاری کرچکے ہیں کہ وہ عوام کو انصاف دہلیز پر فراہم کرنے کاعظم رکھتے ہیں تو ہم ڈی پی اوشیخوپورہ کی توجہ اس خفیہ مقدمہ کی جانب کروانے کی جسارت کررہے ہیں کہ اس واقعہ کو میرٹ پر چیک نہیں ماہر پولیس افسران کی نگرانی میں اس کی تفتیش کی جائے اورگنہگار اگرکوئی ہے تواس کو کیفرکردار تک پہنچایاجائے کب تک ماؤں کی گودیں اجڑتی رہے گی اورکب تک محافظ رہزن بن کر بہو بیٹوں کی عزتوں کو پامال کرتے رہے گے،ضرورت اس امرکی ہے کہ میرٹ پر فیصلے کئے جائیں نجی سیکیورٹی کمپنی کے مالک کے خلاف مقدمہ درج کیاجائے اورلائسنس منسوخ کرکے ایسی کمپنی کو ہمیشہ کے لیے بین کیاجائے تاکہ پھر تیسری مرتبہ کوئی ایسا شرمناک واقعہ رپورٹ نہ ہو اور مہوش کی موت خود کشی ہے یاپھر قتل اس کے حقائق کو منظر عام پر لایاجائے اگراسی طرح شلغم سے مٹی جھاڑی جاتی رہی تو پھر کبھی بھی انصاف کے زینے نہیں چڑھے جاسکے گے پولیس افسران سے واقعہ کی رپورٹ کے ساتھ ساتھ دوتھانوں میں ہوئی ایف آئی آرز کے حوالہ سے تفتیشی افسران کو کٹہرئے میں لاکر اس واقعہ کے چھپے ہوئے حقائق کو منظرعام پر لاکر اللہ کی بارگاہ میں سرخروہونا ہوگا۔
0