0

جمہوریت کے لبادے میں آمریت

اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے حقیقت یہ ہے کہ جمہوری نظام میں سردار، میر، پیر، خان، وڈیرا, چوہدری, جاگیر دار اور گدی نشین کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ ان لوگوں کے سامنے عوام کی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ایک سردار، میر اور وڈیرا اپنی برادری، ذات، قبیلے، علاقے اور حلقہ کا بادشاہ تصور کیا جاتا ہے اُس کی اپنی ذاتی مرضی، خواہش، پسند اور نا پسند کی خلاف ورزی ان کی نظروں میں توہیں اور نا قابل معافی جرم ہوتا ہے جو کہ جمہوری اصولوں کے بالکل بر عکس ہے اور ہماری پارلمینٹ جو کہ جمہوریت کی ماں یعنی (Mother of Democracy) کہلاتی ہے وہ پارلیمینٹ %80 ان غیر جمہوری لوگوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے. ہمارے ملکی سیاسی تاریخ پر نظر کی جائے تو یہ سردار، میر، وڈیرے اور اپنے اپنے حلقے کہ بااثر لوگ جن کو سیاسی زبان میں الیکٹیبلز کہا جاتا ہے وہ الیکٹیبلز ہر حال میں اسمبلیوں میں بیٹھنے کے لیئے مختلف سہارے لے رہے ہوتے ہیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ابھی حال ہی میں پاکستان میں 8 فروری 2024 کے عام انتخابات ہو کر گزرے ہیں جس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی نظریں عوام کے بجائے الیکٹیبلز پر تھیں یاد رہے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے نزدیک اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے الیکٹیبلز کو اپنی کشتی میں سوار کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ الیکٹیبلز یہ وہ لوگ ہیں جو آج تک کسی جماعت سے وفاداری کا حق ادا نہیں کر سکے ہاں انہوں نے وفا کی ہے تو اپنی کرسی سے کی ہے جیسے ہی عام انتخابات نزدیک آتے ہیں الیکٹیبلز اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس کا فاعدہ اٹھاتے ہوئے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جن کی نظریں اقتدار پر ہوتی ہیں اور جو جماعتیں اقتدار کے لیے پر امید ہوتی ہیں ان جماعتوں کے سربراہان سمجھتے ہیں کہ جو سیاسی جماعت زیادہ سے زیادہ الیکٹیبلز کو اپنی کشتی میں سوار کرنے میں کامیاب ہوگی وہی جماعت وفاق میں حکومت بنائی گی اور تخت اسلام آباد پر راج کری گی۔ اس سے ایک بات تو واضع ہو رہی ہے کہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے اور حکومت بنانے کے لیے عوام کی نہیں بلکہ الیکٹیبلز کی حمایت حاصل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے.
اس لیے اقتدار کی خواہشاں جماعتوں کے سربراہان اپنی سیاسی سرگمیوں کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے دورے کرتے ہیں جہاں پر وہ الیکٹپیپلز سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور ان کی ایک صرف ملاقات ہی الیکٹیبلز کی سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے لیے کافی ثابت ہو جاتی ہے اب سوچنے کی یہ بات ہے کہ جو آج تک کسی سے وفا نہیں کر سکے وہ آئندہ ملک و قوم اور اپنے حلقے کے ووٹرز سے کیا وفا کریں گے.
=} اقتدار حاصل کرنے کے لیے عوام کے بجائے الیکٹیبلز کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت برائے نام تو ضرور ہے لیکن حقیقی معنائوں میں کوئی جمہوریت نہیں جمہوریت کا مطلب یہ ہے کے عوام کی مرضی سے عوام کی حکومت ہو یہ تب ممکن ہوگا جب عوام کا ووٹ آزاد ہوگا عوام کے ووٹ پر کوئی اندرونی یا بیرونی مداخلت نا ہو عوام کا ووٹ سرداروں، میروں، پیروں اور وڈیروں کے پریشر سے آزاد ہو اور بد قسمتی یہ ہے کہ ایسا ابھی تک دِکھتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہمیشہ سے لیکر آج تک ہمارا ووٹ یا تو سرداروں، وڈیروں کے حکم پر کاسٹ ہوتا ہے یا تو عوام کا ووٹ برادری، دوستی اور رشتیداریوں کی بنیاد پر کاسٹ ہوتا ہے یا اپنے ذاتی چھوٹے چھوٹے مفادات کی بنیاد پر حلقے کے بااثر لوگوں کو دیا جاتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے عوام کو اپنی رائے ووٹ کے ذریعے سیاستدان کے نظریے، منشور اور کارکردگی کی بنیاد پر دینی چاہیے اور علمیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کا کوئی نظریہ نہیں کوئی منشور نہیں نا ہی کوئی خاص کارکردگی ہے، ہمارے سیاستدان نا تو اپنے ملک سے وفادار ہیں نا ہی عوام کی خوشحالی چاہتے ہیں بس وہ چاہتے ہیں تو صرف اور صرف اقتدار اور ذاتی مفادات اِس لیے جو لوگ کل تک ایک جماعت کے ساتھ تھے آج اُن کے ساتھ نہیں ان کو صرف گرین سگنل کا انتظار ہوتا ہے جیسے ہی اُن کو کہیں سے گرین سگنل مل جاتا ہے وہ اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کر کے اپنا سیاسی سفر کسی اور نئیں کشتی پر سوار ہو کر طئے کرنا چاہتے ہیں جہاں سے وہ اقتدار کے لیے پُر امید ہوتے ہیں. اس بات سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ان کو نا تو جمہوریت کی ضرورت ہوتی ہے نا آئین کی ضرورت اور نا ہی قانون کی ضرورت ہوتی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے نمائندوں کی نا تو سوچ جمہوری ہے نا ہی کردار جمہوری ہے اور نا ہی وہ جمہوریت پسند ہیں اس لیے ہمارا پورا پارلمانی نظام اور جمہوری نظام ان غیر جمہوری لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اور اب ان سے عوام اور ملکی مسائل کے حل، آئین اور قانون کی بالادستی کی کوئی امید نہیں لگائی جا سکتی اور ان سے امید

اپنا تبصرہ بھیجیں