ذمہ دارکون؟(ڈائری حکیم خالد محمود بیگ)
ترقی یافتہ ممالکوں میں انسانیت کی ضرورت کے مطابق بنیادی حقوق کا باقاعدہ جامع جمیع پلان مرتب کیاجاتا ہے جوآنے والے 100سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے،جس میں ہرادارئے کے لیے آسان سے آسان پالیسوں کو مرتب کیاجاتا ہے اورایسے سہل قوانین بنائے جاتے ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں میں کوئی بھی رکاؤٹ حائل نہ ہوسکے،جس کے لیے بہترین تھینک ٹینکس کی مدد لی جاتی ہے اورہرسال نت نئی پالیسیوں کوفروغ بھی دیا جاتا ہے اور انسانوں کی ضروریات کے مطابق سہولیات کی فراہمی ان کو دہلیز پرفراہم کی جاتی ہیں ترقی یافتہ ممالکوں میں ترقی کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں پر فیلڈ میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں دفاتروں میں بیٹھ کر کام کرنے والوں سے زیادہ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہاں اوورسیز پاکستانی ترقی لینابھی گوارہ نہیں کرتے کیونکہ ترقی ہوتے ہی ان کی تنخواہ میں مزید کمی کردی جاتی ہے،جوآج کے ترقی یافتہ ممالک ہیں انہوں نے اسلامی تعلیمات اورحضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی پالیسیوں پرعمل پیر اہوکر ترقی کے زینے چڑھے اوراپنی ذہانت اورایمانداری کالوہا منوایا،اب بڑھتے ہیں اپنے وطن عزیز پاکستان کی طرف جہاں الٹی گنگا بہانے کے لیے ہر وہ قانون بنایا جاتا ہے جس سے تاجر طبقہ کوکام کرنے کے لیے فائلوں کو تیزپہیے لگائے بغیر کوئی بھی کام ممکن نہ ہوسکے،نقشہ،بجلی،پانی،گیس،سیوریج،سول ڈیفنس کے قوانین سمیت تمام قوانین کو پورا کرنا کسی بھی تاجر کے لیے آسان نہیں حصول کنیکشن اورترقیاتی کاموں کے لیے آج تک کوئی ون ونڈو نہیں بنائی گئی اسی طرح کوئی بھی ادارہ اس وقت حرکت میں نہیں آتا جب تک کوئی سانحہ رونما نہ ہوجائے اوراس کی مدت آپریشن بھی محض15دن تک ہوتی ہے اور جب لوگوں کی یادوں سے اس سانحہ کے نقوش مدہم ہوجاتے ہیں تو وہی سرکاری افسران حکومت کو خوش کرنے والی جے جے کار میں لگ جاتے ہیں اورایسے ہی پاکستانی لوگ بھی ہیں جو شارٹ کٹ کے لیے ہر وہ ناجائز اقدام اٹھاتے ہیں کہ جائز کام کروانے کے لیے بھی پیسہ خرچ کرتے ہیں اورناجائز کام کروانے کے لیے سودئے بازی دفاتروں میں ہی طے پاجاتی ہے جس کی وجہ سے آگے دوڑ پیچھے چوڑ والی مصداق کوبار بار دہرایا جاتا ہے،ضلع شیخوپورہ انڈسٹری زون ہے جس کو واچ کرنے والے درجن سے زائد سرکاری ادارئے ہیں جو بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے کے لیے ماہانہ لاکھوں روپے اکٹھے کرتے ہیں لیبرڈیپارٹمنٹ ہو،سوشل سیکورٹی کاادارہ ہو،گیس،بجلی،پانی یاپھر سول ڈیفنس سب کے سب طمع نفسانی کی خاطر مک مکاؤ کرتے ہیں اورسب اچھا کی رپورٹیں جاری کرتے ہیں ہوٹلز،شادی ہالز،مالز،گیس ری فلنگ سمیت ہر اس جگہ جہاں پر سول ڈیفنس ادارہ کی پہنچ ہے وہ انڈسٹریز میں جاکر مک مکاؤ کرتے ہیں اور سیفٹی قوانین کی دھجیاں اڑانے کاسرٹیفکٹ جاری کردیتے ہیں اورجو مال پانی نہیں دیتے ان کو ایسے چکروں میں پھنسادیاجاتا ہے کہ وہ اگلی دفعہ سول ڈیفنس میں موجود کالی بھیڑوں کو اپنے دفاتروں میں انسپیکشن کے دوران چائے پانی کھانا پیش کرتے ہی لفافہ تھمادیتے ہیں جس سے وہ بھی خوش اورمحکمہ کا پہیہ رواں دواں ہوجاتا ہے شیخوپورہ میں حالیہ چندسالوں کے دوران ایسے ایسے دلخراس واقعات رونما ہوئے کہ دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے اورجن کے ساتھ حادثات رونما ہوجاتے ہیں پورئے کا پورا قبیلہ مفلوج اوربے سہار ا ہوجاتا ہے جن کے حصے میں سرکاری اعلانات کے بعد بیوہ کو پانچ سے10لاکھ روپے تھما دیئے جاتے ہیں زندگی کا نعم البدل کوئی نہیں اسکا معاؤضہ 10لاکھ اورجسم کاکوئی حصہ مفلوج ہوجائے تواسکے لیے5لاکھ روپے تک مدد کااعلان کیاجاتاہے بات یہی ختم نہیں ہوجاتی جوسانحہ یاواقعہ رونما ہوجاتا ہے اس کے ٹھیک 1ماہ بعدوہی کام دوبارہ بام عروج پرپہنچانے کے لیے سودئے بازیاں ہوتی ہیں یا پھر سیاسی اثرورسوخ یاپھر بااثر شخصیات کی سفارشات ہونا شروع ہوجاتی ہیں اوروہی موت کامکروہ دھندہ دوبارہ شروع ہوجاتا ہے پچھلے چند مہینوں میں جھبراں منڈی میں غیر قانونی ڈبہ اسٹیشن میں دھماکے کے نتیجہ میں کئی افراد جان سے گئے اورکئی جسمانی اعضا سے محروم ہوگئے،شرقپور شریف،شرقپور روڈ،سرگودھا روڈ سمیت متعدد شاہرات پر ایسے ہولناک واقعات رونما ہوئے ان سے بھی کسی نے کوئی سبق نہیں لیا اور اب عیدالفطر کے روز لاہور روڈ پرواقعہ ای کیمونٹی کے قریب مسافر رکشہ میں غیر قانونی گیس سلنڈر دھماکے سے2نامعلوم افراد موقع پر ہی جھلس کرجان بحق ہوگئے4جھلس کر ریسکیواہلکاروں کی مدد سے ہسپتالوں میں منتقل کردیئے گئے،فیصل آباد روڈ پر رکشہ کاسٹرینگ فری ہوجانے کی وجہ سے رکشہ الٹنے سے4مسافر موت کی وادی میں جاتے جاتے بچ گئے اورایک بار پھر انتظامیہ موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز کے خوف سے حرکت میں آگئی اورغیر قانونی گیس ری فلنگ کے اڈوؤں پرچھاپے مارئے گئے اور اسی طرح غیر قانونی گاڑیوں میں لگائے گئے غیر معیاری گیس سلنڈروں کے اتروانے کے حوالہ سے آرٹی اے سیکرٹری میڈم اقصی ریاض نے ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ ڈاکٹر وقار علی خان کی ہدایت پر ایل پی جی بطور فیول استعمال کرنے والی ویگنوں اوررکشوں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے 1روز میں 43گاڑیوں اوررکشوں کے چالان کئے گئے جن میں سے24گاڑیوں اوررکشوں کے ایل پی جی سلنڈرز اترواکرمحکمہ سول ڈیفنس کی تحویل میں دے دیئے گئے،40سے زائدایل پی جی رکشوں کو بند کردیا گیا،10ایل پی جی رکشہ ڈرائیورں کے مالکان کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے،بلاشبہ یہ کارووائیاں کرکے مزید انسانی جانوں کو داؤ پر لگانے سے بچالیا گیا اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ دوانسانی جانوں کے ضائع ہونے اور4کی زندگیاں مفلوجی حالت میں پہنچنے کاذمہ دار کون ہے؟اندرون شہر اورمین شاہرات پر درجنوں ایسے غیر قانونی پیٹرول پمپ مشینیں لگا کرانسانی جانوں کو خطرئے میں ڈالا گیا جن کولگام ڈالنے والی پولیس مبینہ طور پر منتھلیاں اورپیٹرول لیکر خاموشی کاروزہ رکھے ہوئے ہیں اوراسی طرح محکمہ سول ڈیفنس میں موجود کالی بھیڑیں بھی طمع نفسانی کی خاطر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ضرورت اس امرکی ہے کہ جن علاقوں میں کوئی افسوسناک،دلخراش حادثہ غیرقانونی گیس ری فلنگ کے دوران ہو،غیر معیاری گیس سلنڈر گاڑیوں میں رکھوائے جانے کیوجہ سے ہویاپھرانڈسٹریز میں آتشزدگی کے واقعات ہو،شادی ہالز،مالز،ہوٹلوں اورپبلک مارکیٹوں میں ہو اسکا مقدمہ ضلعی انتظامیہ اورمتعلقہ اداروں کے افسران بالا کے خلاف بھی درج کیاجائے اورحادثہ کاشکار ہونے والوں کے لواحقین کو اسی محکمہ میں روزگار کے مواقعے فراہم کئے جائیں تاکہ وہ محکمہ میں آکران سوراخوں کو بند کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں جس کی وجہ سے ان کے پیارؤں کی جانیں گئیں یاپھر جسمانی معذوری میں مبتلا ہوئے۔
0