شیخوپورہ ڈائری حکیم خالد محمود بیگ (لوگوں کو خوشی دینگے تو خوشی ملے گی غم دینگے توباری کاانتظار کریں)
پاکستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا ہے،اس سونے کی چڑیاکو پانے کے لیے کتنی طاقتیں شب وروز پیسے کو پانی کی طرح بہارہی ہونگی کبھی کسی نے سوچابھی نہیں ہوگا،پچھلے چندسالوں سے پاکستان میں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے ایسے چہرئے منظر عام پر آئے انکے الفاظ اورانکے دعوؤں کی ایسی کلی کھلی کے باشعور انسان یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ ہم لوگ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑیوں کے وار آخر کیوں کررہے ہیں؟پاکستان کی تاریخ کے اوراق پر اٹی ہوئی مٹی کی گرد جب جھاڑی گئی تو سالوں بات فاضل عدلیہ کی جانب سے اس بھٹو شہید کے حق میں فیصلہ دیا گیالیکن کب؟جب پاکستان دولخت ہوگیا،بھٹو شہید قبر میں پہنچ گئے اورانکو پہنچانے والے بھی لحد میں کس حال میں ہونگے کوئی نہیں بتاسکتا،کیونکہ جب خالق کائنات نے فیصلہ دے دیا کہ حقوق اللہ تو معاف ہوسکتے ہیں لیکن حقوق العباد کی معافی اس وقت تک نہ دی جائے گی جب تک جس کے حقوق صلب کئے گئے ہیں وہ معاف نہ کردئے گااللہ اوراسکے رسولﷺکے وعدئے سچے ہیں،بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے لیکر آج تک جتنی بھی پراؤڈ پرسنیلٹیز کو شہید کیا گیایا پھر قاتلانہ حملے کئے گئے جو آج بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اپنے پیاروں کولہوکس کے ہاتھوں پرتلاش کریں؟کیاان کے من میں یہ نہیں آتا ہوگا کہ ہمارئے پیاروں کو عدل وانصاف کب اورکون سے فاضل جج صاحبان دینگے؟کیونکہ سوچ پر کبھی پابندی نہیں لگائی جاسکتی،حالیہ چند سالوں میں پاکستان کے اندر سیاسی کھیل ہویامعاشی کھیل ہو اسکے کرداروں کے برہنہ ہوجانے کے ڈر سے بھی کچھ لوگ ایسے ایسے فعل سرانجام دینے سے نہیں گھبراتے کہ کوئی دیکھے نہ دیکھے اللہ تودیکھ رہا ہے،کیونکہ انسانی وجود کے اندر ہی حق اورباطل کی طاقتیں موجود ہیں کامیابی وکامرانی والے وہی لوگ ہیں جو نیک بندوں کے راستہ پر چلنے کے لیے پانچ وقت نماز میں دعائیں مانگتے ہیں اور پناہ مانگتے ہیں شیطان مردود اور اسکے پیروکاروں سے دنیا میں بڑی بڑی طاقتیں زمین بوس ہوگئی،فرعون،نمرود شداد،یزید،شمر جیسے جو سب کو اپنا غلام بنانا چاہتے تھے آج زمین ان کی مالک ہے اورکئی بدبخت توایسے بھی ہیں جن کو زمین بھی نصیب نہیں ہوئی اورعجائب گھروں میں بطور ممیز جسدخاکی پڑاہے جسکو دیکھ کر بھی عبرت حاصل نہ کیا جانا اللہ کے قہر کو دعوت دینے کے مترادف ہے،انسان کوبھولنا نہیں چاہیے کہ قدرت اتنی پرفیکٹ ہے کہ آپ کے عمل کا بدلہ ضرور لٹاتی ہے سکون فراہم کرینگے تو لوٹ کر واپس آپ کے پاس آئے گا کسی کی آنکھ میں آنسوؤں کا سبب بنے گے توانتظار کریں اورباری کا انتظار کریں،
چندسالوں سے وطن عزیز میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملے رولانے والوں کو رونا پڑا،خود کو پارسا سمجھنے والوں کی چڈی تک پوری دنیا نے دیکھ لی،حاصل کچھ ہوا؟نقصانات اتنے ہوئے ہیں کہ محب وطنوں کے دل پاش پاش ہوگئے جوکبھی سوچابھی نہیں تھا اس کو بھی برداشت کرنا پڑا،کیا یہ تھا قائد کاپاکستان جس کو بنانے کے بجائے اپنوں نے ہی بجلی گرانا شروع کردی سرحدوں پر باڑھ تولگ گئی لیکن اندرکے چھپے ہوئے دشمنوں کو کون بے کیفر کردار تک پہنچائے گا جو بھی حق اورسچ کے لیے کفن حسینی سر پرباندھ کر نکلنے کی کوشش کرتا ہے اسکو قید وبند کی صعوبتوں کے حوالہ کردیا جاتا ہے اورجو بھی عدل وانصاف کے ساتھ کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے اس کومختلف حربوں سے خوف زدہ کیاجاتاہے ان میں قلمکار،سیاستدان،ججز وکلا سمیت ہر وہ فوجی شامل ہے جسکایہ ایمان ہے زندگی اللہ کی امانت ہے امانت میں خیانت نہیں کرینگے پھر بھلا ان کو کون مات دئے سکتا ہے،ارشد شریف قتل کیس ہو،سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان اس کے چاہنے والے،فاضل عدلیہ وکلااس میں شامل ہیں کسی کو اتنا مجبور کردیا جاتا ہے کہ اپنی ماں جیسی دھرتی کو چھوڑ کر حق لکھنے،حق بولنے کے لیے دیارغیر میں جاکر ہی وہ فرائض منصبی ادا کرنا پڑرہے ہو باز تو پھر بھی نہیں آتے،ایسے ہی لاہور کے رہایشی محب وطن درد دل رکھنے والے معروف ایڈووکیٹ عبدالمتین بھی ہیں جو غریب بے کسوں مجبوروں کی آواز کیا بنا کہ دنوں میں اس قانون دان میاں عبدالمتین کے جھنڈئے سوشل میڈیا پر ایسے لہرائے کہ میاں عبدالمتین سمجھے گئے کہ لوگ عدل وانصاف کے زینے چڑھنا چاہتے ہیں لیکن سسٹم ہی ایسا بنایاگیا کہ کوئی اس مایا جال سے نکل سکے اوراس مایاجال کو پاش پاش کرنے کے لیے میاں عبدالمتین اپنے ایسویسی ایٹس حسن ہمایوں،عمراسلم کے ساتھ اس محاذ پر اترئے جنہوں نے دنوں میں ایسے ایسے نام کے قانون کے رکھوالوں کو بے نقاب کیا کہ لوگ عش عش کراٹھے،اور پھر میاں عبدالمتین اورانکی ٹیم عوامی نبض کو جان گئے کہ لوگ عدل وانصاف کے متلاشی ہیں جو عدل وانصاف کے حصول کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھانے نکلے گے ہم ان کی معاؤن ومددگار بنے گے لیکن نہ جانے وہ کون سے لوگ ہیں جو قانون کو گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں نام کے پولیس والے ہیں یونیفارم بھی پولیس والا ہے قانون کے رکھوالے ہیں لیکن خود قانون کی نہیں مانتے اورنہ ہی قانون کی سنتے ہیں جنہوں نے شاہدرہ وکلا آفس میں کام کرتے ہوئے میاں عبدالمتین اورانکے ایسویسی ایٹس کو جس طریقہ سے اٹھایا سی سی ٹی فوٹیج دیکھ کر دل خون کے آنسورورہا ہے اورایک ہی سوال اٹھتا ہے کہ قانون کے رکھوالوں پر اگر دہشتگردی کی دفعات لگ سکتی ہے توعام آدمی کی انکے سامنے کیا حثیت ہے اب تک آئی جی پنجاب وزیراعلیٰ پنجاب یاکوئی کیوں نہیں بول رہا اگر تو میاں عبدالمتین نے کوئی جرم کیاتھا تو ایک پراؤڈ پراسنیلٹی کو اس طرح بے عزت کرکے انکے دفتر سے اٹھانے کے لیے کون سے قانون کی پاسداری کی گئی قوم باشعور ہوچکے ہیں نہ ہی قلمکاروں کی قلمیں رکے گی اورنہ ہی حق وسچ کا ساتھ دینے والے پیچھے ہٹے گے عدل وانصاف کے نفاذ کے لیے چاردن کی زندگی کو قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیاجائے گا وطن عزیز کے ساتھ کھیلواڑ ہرگزنہیں ہونے دیا جائے گا اونٹ کو پہاڑئے کے نیچے قانون کی طاقت ہی لائے گی اور موجودہ منظرنامہ دکھائی دے رہا ہے کہ کالے کوٹ کو غیور پاکستانیوں کی آواز بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
0